تعارف
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور دنیا کو نئی دریافتوں سے روشناس کرایا۔ قرآن پاک اور احادیث میں غور و فکر اور تحقیق کی حوصلہ افزائی کی گئی، جس نے مسلمانوں کو علم اور سائنس کی طرف مائل کیا۔ ابتدائی مسلم سائنسدانوں نے طبیعیات، کیمیا، فلکیات، طب اور ریاضی میں شاندار خدمات انجام دیں۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، مختلف سماجی، سیاسی اور مذہبی عوامل کے باعث مسلمانوں کی سائنسی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ نتیجتاً، مسلمان سائنس سے دور ہوتے گئے اور ایک دور میں جن علوم میں وہ پیش پیش تھے، وہاں پسماندگی کا شکار ہو گئے۔
اس مضمون میں ہم جانچنے کی کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کو سائنس سے متنفر کرنے میں کن عوامل نے کردار ادا کیا اور کس طرح یہ رجحان تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ مسلم دنیا دوبارہ علمی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔**قرون وسطیٰ کا سنہری دور**
اسلامی دنیا کا قرون وسطیٰ (7ویں سے 13ویں صدی) علم و تحقیق کا سنہری دور تھا۔ اس دور میں مسلمان سائنسدانوں نے مختلف علمی شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں، جس سے سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ بغداد کا بیت الحکمت اور قرطبہ جیسے علمی مراکز علم کی ترقی کا مرکز تھے۔
ابن الہیشم، ابن سینا، الخوارزمی، الرازی، اور دیگر مسلم سائنسدانوں نے طبیعیات، طب، فلکیات اور ریاضی میں عظیم کام سر انجام دیے۔ الخوارزمی کو الجبرا کا بانی سمجھا جاتا ہے، جبکہ ابن سینا نے طب میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں، جن کا اثر مغربی طب پر بھی پڑا، ابن الہیشم نے بصریات متعارف کرائے جو آج بھی مستعمل ہیں۔ ان کامیابیوں کے باوجود، وقت کے ساتھ مسلمانوں میں سائنس سے دوری پیدا ہونے لگی۔
مذہبی اور سیاسی عوامل
مسلمانوں کے سائنس سے متنفر ہونے میں کئی مذہبی اور سیاسی عوامل شامل تھے۔ ابتدائی دور میں اسلام نے علم و تحقیق کی حوصلہ افزائی کی، لیکن بعد میں بعض علماء کی جانب سے سائنس کو دین کے ساتھ ٹکراؤ میں تصور کیا جانے لگا۔ یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ سائنس دین کے عقائد کو چیلنج کرتی ہے، حالانکہ قرآن اور حدیث میں کئی مواقع پر قدرتی حقائق پر غور و فکر کی تاکید کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، اسلامی حکومتوں کا زوال اور مغربی نوآبادیاتی نظام نے بھی مسلمانوں کو سائنسی علوم سے دور کیا۔ مغربی سامراج نے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو کمزور کیا اور جدید تعلیم کے نظام میں صرف مذہبی تعلیم کو فوقیت دی گئی، جس سے سائنسی سوچ کو نقصان پہنچا۔
سیاسی طور پر بھی، اسلامی دنیا میں اندرونی خلفشار اور بیرونی حملوں کے باعث سائنسی ترقی کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ خلافت عباسیہ کے دور میں، جب بغداد جیسے مراکز تباہ ہوئے، سائنسی تحقیق کے ذرائع ختم ہو گئے۔ ایسے میں سائنسی ادارے اور یونیورسٹیاں تباہ ہو گئیں، جس کا اثر مسلمانوں کی علمی سرگرمیوں پر پڑا۔
مغرب کی برتری اور مسلمانوں کی پسماندگی
مغرب کی صنعتی اور سائنسی انقلاب نے مسلمانوں کے سائنسی زوال کو مزید واضح کیا۔ یورپ میں سائنس کے میدان میں بڑی ترقیات ہوئیں اور وہاں کے معاشروں نے سائنسی علوم کو اپنا لیا، جبکہ مسلمان اس ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ نوآبادیاتی دور میں مغرب نے مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کر لیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہوا اور وہ مغربی ترقیات کو سمجھنے کے بجائے ان سے دور ہوتے گئے۔
اس پسماندگی کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی سائنسی تحقیق سے لاتعلقی تھی۔ اس دور میں مسلمانوں نے مغرب کی تحقیقاتی کامیابیوں کو رد کرنے کی کوشش کی، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بہت سے مغربی سائنسدانوں نے اسلامی سائنسدانوں کے کاموں سے استفادہ کیا تھا۔
تعلیمی نظام کا زوال
مسلمانوں کے سائنسی زوال کی ایک اور بڑی وجہ ان کا تعلیمی نظام تھا۔ قرون وسطیٰ میں مدارس اور جامعات میں سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی، مگر بعد کے ادوار میں دینی اور سائنسی علوم کے درمیان ایک فرق پیدا ہو گیا۔ مدارس میں صرف مذہبی تعلیم کو فوقیت دی گئی اور سائنسی علوم کو نظرانداز کیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئی نسل سائنسی علوم میں دلچسپی نہیں لیتی تھی، جس سے سائنسی میدان میں مسلمان مزید پیچھے ہوتے گئے۔ جدید تعلیم کے اداروں میں بھی سائنسی مضامین کو بنیادی اہمیت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں سائنس کی سمجھ بوجھ میں کمی آ گئی۔
جدید دور میں تبدیلی کی ضرورت
آج کی دنیا میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سائنس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف دوبارہ رجوع کریں۔ اسلامی ممالک میں سائنسی تحقیق اور تعلیم کے اداروں کو دوبارہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو سائنسی میدان میں تربیت مل سکے۔ ساتھ ہی ساتھ، مسلمانوں کو اس غلط فہمی کو دور کرنا ہوگا کہ سائنس اور دین میں تضاد ہے۔
اسلام نے ہمیشہ علم کی حوصلہ افزائی کی ہے اور سائنسی حقائق کا مطالعہ دین کا حصہ سمجھا گیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سائنس کی اہمیت کو دوبارہ اپنائیں اور جدید تحقیق میں شامل ہوں۔
نتیجہ
مسلمانوں کو سائنس سے متنفر کرنے میں کئی عوامل شامل ہیں، جن میں مذہبی غلط فہمیاں، سیاسی زوال، اور نوآبادیاتی دور کی پسماندگی شامل ہیں۔ ان عوامل کو سمجھ کر اور ان سے سبق سیکھ کر ہی ہم دوبارہ علمی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سائنس کی ترقی کے بغیر مسلمانوں کی فلاح ممکن نہیں ہے، اور اس لئے سائنس اور دین کے تعلق کو دوبارہ سمجھنے اور اس کی اہمیت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کا سائنسی میدان میں کردار دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں سائنسی مضامین کو دوبارہ بنیادی اہمیت دی جائے، تحقیق اور جستجو کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور اسلامی ممالک میں تحقیقاتی اداروں کو مضبوط کیا جائے۔